انسان کی جان اور اس کا خون محترم ہے، دنیا کے سارے
مذاہب میں احترامِ نفس کا یہ اصول موجود ہے اورجس مذہب اورقانون میں
اس دفعہ کو تسلیم نہیں کیاگیاہے، اس مذہب اور قانون کے
تحت رہ کر کوئی انسان پُرامن زندگی نہیں گذارسکتا ہے۔
اور اگر خالص انسانیت کی
نظر سے دیکھا جائے، تو اس لحاظ سے بھی کسی ذاتی مفاد کی
خاطر اپنے بھائی کو قتل کرنا، بدترین جرم ہے، جس کا ارتکاب کرکے انسان
میں کوئی اخلاقی بلندی پیدا کرنا تو در کنار، اس کا
درجہٴ انسانیت پر قائم رہنا بھی ناممکن ہے۔
دنیا کے سیاسی قوانین،
تو انسانی احترام کو صرف سزا کے خوف سے قوت کے بل بوتے پر قائم کرتے ہیں؛
مگر ایک سچے دین ومذہب کا کام انسانی دلوں میں اس کی
صحیح قدر وقیمت پیدا کردیتا ہے؛ تاکہ جہاں انسانی
تعزیر کا خوف نہ ہو، وہاں بھی ایک انسان دوسرے انسان کا خون
کرنے سے پرہیز کرے، اس نقطئہ نظر سے احترامِ نفس کی جیسی
صحیح اور موٴثر تعلیم اسلام میں دی گئی ہے، وہ
کسی دوسرے اور ادیان ومذاہب میں ناپید ہے، قرآن کریم
میں مختلف جگہوں پر مختلف انداز وپیرایہ سے اس تعلیم کو
انسانی دلوں میں دل نشیں کیاگیا ہے؛ چنانچہ ایک
جگہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نیک بندوں کی صفات بیان
کرتے ہوئے فرمایا: ﴿
وَلاَ یَقْتُلُوْنَ النَّفْسَ الَّتِیْ حَرَّمَ اللہُ اِلاَّ
بِالْحَقِّ وَلاَ یَزْنُوْنَ وَمَنْ یَّفْعَلْ ذٰلِکَ یَلْقَ
أَثَاماً﴾ (الفرقان:۶۸) ترجمہ: ”اور جس ذات کو اللہ تعالیٰ نے حرام فرمایا
ہے اس کو قتل نہیں کرتے ہیں، ہاں مگر حق پر اور وہ زنا نہیں
کرتے اور جو شخص ایسے کام کرے گا تو سزا سے اس کو سابقہ پڑے گا۔“
اس تعلیم کے اولین مخاطب وہ
لوگ تھے، جن کے نزدیک انسانی جان ومال کی کوئی قدر وقیمت
نہ تھی اور جو اپنے ذاتی مفاد کے لیے اولاد جیسی عظیم
نعمت کو بھی موت کے گھاٹ اتارنے میں فخر محسوس کیا کرتے تھے؛ اس
لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان کی طبیعتوں
کی اصلاح کے لیے خود بھی ہمیشہ احترامِ نفس کی تلقین
کیاکرتے تھے، احادیثِ مبارکہ کا مطالعہ کرنے والے حضرات بخوبی
جانتے ہیں کہ احادیث کا ایک بڑا ذخیرہ اس قسم کے ارشادات
وبیانات سے بھرا پُرا ہے، جس کے اندر ناحق خون بہانے کو گناہِ عظیم
اور بدترین جرم بتایا گیا ہے، جیسے حضور اکرم صلی
اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: ”الکبائرُ الاشراکُ باللہِ وقتلُ النَفْسِ وعقوقُ الوالدینِ
والیَمِیْنُ الغَمُوسُ“ (مشکوٰة:۱۷، باب الکبائر وعلامات النفاق) ترجمہ: بڑے گناہوں میں سے
اللہ کے ساتھ شرک کرنا، جان مارنا، والدین کی نا فرمانی کرنا
اور جھوٹی قسمیں کھانا ہے۔
حرمت نفس کی یہ تقسیم
کسی فلسفی یا معلم اخلاق کی نہ تھی کہ اس کا دائرئہ
کار صرف کتابوں کی حد تک محدود رہتا؛ بلکہ وہ خدا اور اس کے رسول صلی
اللہ علیہ وسلم کی تعلیم تھی، جن کا ہر ہر لفظ مسلمانوں
کے لیے ایمان ویقین کا درجہ رکھتا ہے، جن کی پیروی
ہر اس شخص پر واجب اور ضروری ہوجاتی ہے، جو کلمہٴ توحید
(لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ) کا اقرار کرتا ہو؛ چنانچہ ایک چوتھائی
صدی کے قلیل عرصہ میں ہی اس تعلیم کی بدولت
عرب جیسی خونخوار اور جانور نما قوم کے اندراحترامِ نفس اور امن پسندی
کا ایسا مادہ پیداہوا کہ ایک عورت رات کی تاریکی
میں تنِ تنہا قادسیہ سے صنعا تک سفر کرتی تھی اور کوئی
اس کی جان ومال پر حملہ نہ کرتا تھا اور بہ حفاظت وہ اپنی منزل تک
پہونچ جایا کرتی تھی؛ حالانکہ یہ انھیں درندوں اور
لٹیروں کا شہر اور ملک تھا، جہاں بڑے بڑے دل گردے والے بھی گذرتے ہوئے
لرزجایا کرتے تھے، گویا کہ حیوانیت اور قساوتِ قلبی
ان کے لیے عام بات تھی، ایسے سنگین حالات میں اسلام
نے ببانگِ دُہُل یہ آواز بلند کی: ﴿وَلاَ یَقْتُلُوْنَ النَّفْسَ الَّتِیْ
حَرَّمَ اللہُ اِلاَّ بِالْحَقِّ﴾ (الفرقان:۶۸) ”یعنی انسانی جان کو اللہ نے حرام قرار دیا
ہے،اس کو ناحق قتل مت کرو؛ مگر اس وقت جب کہ حق اس کے قتل کا مطالبہ کرے“ اس آواز
میں ایک قوت وطاقت تھی؛ اس لیے دنیا کے گوشہ گوشہ میں
پہونچی اور اس نے انسانوں کو اپنی جان کی صحیح قدر وقیمت
سے آگاہ کیا، خواہ کسی قوم وملت نے یا کسی ملک وشہر نے
اسلام کو اختیار کیا ہو یا نہ کیاہو، اجتماعی تاریخ
کا کوئی بھی انصاف پسند انسان اس سے انکار نہیں کرسکتا کہ دنیا
کے اخلاق وقوانین میں انسانی جان کی حرمت وکرامت قائم
کرنے کا جو فخر مذہبِ اسلام کو حاصل ہے وہ کسی دوسرے ادیان ومذاہب کو
حاصل نہیں۔
غور کرنے سے یہ بات واضح ہوجاتی
ہے کہ ﴿وَلاَ یَقْتُلُوْنَ
النَّفْسَ الَّتِیْ حَرَّمَ اللہُ﴾ ہی نہیں فرمایا؛ بلکہ ﴿اِلاَّ بِالْحَقِّ﴾ بھی کہا گیا، ایسے ہی ﴿مَنْ قَتَلَ نَفْساً فَکَاَنَّمَا
قَتَلَ النَّاسَ جَمِیْعاً﴾ ہی نہیں فرمایا؛ بلکہ اس کے ساتھ ﴿بِغَیْرِ نَفْسٍ اَوْ فَسَادٍ
فِیْ الْاَرْضِ﴾
بھی کہا گیا، یہ نہیں کہ کسی بھی جان کو کسی
بھی حال میں قتل مت کرو، اگر ایسا کہا جاتا ، تو یہ عدل
کے بالکل خلاف ہی نہیں؛ بلکہ حقیقی ظلم ہوتا، دنیا
کو اصل ضرورت اس بات کی نہ تھی کہ انسان کو قانونی گرفت سے
بالکل آزاد کردیاجائے کہ جتنا چاہے، جہاں چاہے، جب چاہے فساد برپا کرے، جس
قدر چاہے ظلم وستم کے پہاڑ توڑے، جس کو چاہے اور جب چاہے بے آبرو کرکے اس کی
عزت وآبرو کا جنازہ نکال دے اور ان تمام کے باوجود اس کی جان محترم ہی
رہے؛ بلکہ اصل ضرورت یہ تھی کہ دنیامیں امن وامان کی
خوش گوار فضا قائم کی جائے اور ایک ایسا منظم دستورالعمل تیار
کیاجائے، جس کے تحت ہر فرد اپنی حدود میں آزاد رہے اور کوئی
شخص اپنے حدود سے تجاوز نہ کرے، اس غرض کے لیے ﴿اِلاَّ بِالْحَقِّ﴾ کی محافظ قوت درکار تھی ورنہ امن کی جگہ
بدامنی ہوتی۔
قتل ناحق کی ایسی سخت
ممانعت اور قتل حق کی ایسی سخت تاکید کرکے شریعت ِ
اسلامیہ نے افراط وتفریط کی راہوں کے درمیان عدل وتوسط کی
سیدھی راہ کی طرف ہماری راہ نمائی کی ہے، ایک
طرف وہ مُسرف اور حد سے تجاوز کرنے والا گروہ ہے، جو انسانی جان کی کوئی
قدر وقیمت نہیں سمجھتا اور دوسری طرف وہ غلط فہم اور کورچشم
گروہ ہے، جو انسانی خون کی دائمی حرمت کا قائل ہے اور کسی
صورت میں بھی اسے بہانا جائز نہیں گردانتا،اسلام نے ان دونوں
غلط خیالوں کی تردید کردی اور اس نے یہ تعلیم
دی کہ انسانی نفس کی حرمت نہ تو ابدی اور دائمی ہے
اور نہ اس کی قدر وقیمت اس قدر ارزاں اور سستی ہے کہ نفسانی
جذبات کی تسکین کی خاطر اسے ہلاک کردینا جائزہو؛ مگر جب
وہ سرکشی اختیار کرکے حق پر دست درازی کرتاہے، تو اپنے خون کی
قیمت کو کھودیتا ہے، پھر اس کے خون کی قیمت اتنی بھی
نہیں رہ جاتی جتنی کہ پانی کی قیمت ہوتی
ہے۔
جب کوئی جماعت سرکشی پر اتر
آتی ہے، تو وہ کوئی ایک فتنہ نہیں ہوتا، جو وہ برپا کرتی
ہو؛ بلکہ ان میں طرح طرح کے شیطان صفت انسان بھی شامل ہوتے ہیں
اور ہزاروں طرح کے فتنے ان کی بدولت وجود پذیر ہوتے ہیں، ان شیطانوں
میں سے تو بعض طمع وحرص کے پجاری ہوتے ہیں جو غریب قوموں
پرڈاکہ ڈالتے ہیں اور ان کے خون پسینہ سے کمائے ہوئے روپیوں پیسوں
کو اپنی عیارانہ چالوں سے لوٹتے ہیں اور پھر اپنی تجوریاں
بھرتے ہیں، عدل وانصاف کو مٹاکر جور وجفا کے علَم کو بلند کرتے ہیں،
ان کے ناپاک اثر سے قوموں کے اخلاق تباہ وبرباد ہوجاتے ہیں، تو ایسی
حالت میں جنگ جائز ہی نہیں؛ بلکہ فرض ہوجاتی ہے، اس وقت
انسانیت کی سب سے بڑی خدمت یہی ہوتی ہے کہ ان
ظالم بھیڑیوں کے خون سے صفحہٴ ہستی کے سینے کو سرخ
کردیا جائے اور ان مفسدوں کے شر سے اللہ کے مظلوم وبے کس بندوں کو نجات دلائی
جائے، جو شیطان کی امت بن کر اولادِ آدم پر اخلاقی، روحانی
اور مادی تباہی کی مصیبتیں نازل کرتے ہیں، وہ
لوگ انسان نہیں؛ بلکہ انسانوں کی شکل وصورت میں درندے اورانسانیت
کے حقیقی دشمن ہوتے ہیں، جن کے ساتھ اصلی ہمدردی یہی
ہے کہ ان کو صفحہٴ ہستی سے حرفِ غلط کی طرح مٹادیا جائے،
ایسے وقت میں ہر سچے، بہی خواہ انسانیت کا اولین
فرض ہوجاتا ہے کہ ایسے لوگوں کے خلاف تلوار اٹھائے اور اس وقت تک آرام نہ
کرے، جب تک کہ خدا کی مخلوق کو اس کے کھوئے ہوئے حقوق واپس نہ مل جائیں۔
جنگ کی مصلحت کو اللہ تعالیٰ
نے اپنے حکیمانہ انداز میں بیان فرمایا ہے کہ : ﴿وَلَوْلاَ دَفَعُ اللہِ النَّاسَ
بَعْضَھُمْ بِبَعْضٍ لَّھُدِّمَتْ صَوَامِعُ وَبِیَعٌ وَّ صَلَوٰاتٌ
وَّ مَسٰجِدُ یُذْکَرُ فِیْھَا اسْمُ اللہِ کَثِیْراً﴾ (الحج:۴۰): ”اگر اللہ تعالیٰ لوگوں کو ایک دوسرے کے ذریعہ
دفع نہ کرتا، تو صومعے اور گرجے اور معبد اور مسجدیں، جن میں اللہ کا
ذکر کثرت سے کیاجاتا ہے، مسمار کردیے جاتے۔“
جنگ کی اسی مصلحت کو ایک
دوسری جگہ یوں بیان فرمایا ہے کہ: ﴿وَلَوْلاَ دَفَعُ اللہِ النَّاسَ
بَعْضَھُمْ بِبَعْضٍ لَّفَسَدَتِ الْاَرْضُ وَلٰکِنَّ اللہَ ذُوْفَضْلٍ عَلَی
الْعٰلَمِیْنَ﴾
(البقرہ:۲۵۱)
ترجمہ: ”اگر اللہ لوگوں
کو ایک دوسرے کے ذریعہ دفع نہ کرتا، تو زمین فساد سے بھر جاتی؛
مگر دنیا والوں پر اللہ کا بڑا فضل ہے۔“ (کہ وہ دفعِ فساد کا انتظام
کرتا رہتا ہے)
یہی فساد وبدامنی ظلم
وجبر کی جنگ ہے، جس کو دفع کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے
اپنے نیک بندوں کو تلوار اٹھانے کا حکم دیا ہے؛ چنانچہ ارشاد باری
تعالیٰ ہے: ﴿اُذِنَ
لِلَّذِیْنَ یُقٰتِلُوْنَ بِاَنَّھُمْ ظُلِمُوْا وَاِنَّ اللہَ
عَلٰی نَصْرِھِمْ لَقَدِیْرُ o
الَّذِیْنَ اُخْرِجُوْا مِنْ دِیَارِھِمْ بِغَیْرِ حَقٍّ اِلاَّ
اَنْ یَّقُوْلُوْا رَبُّنَا اللہُ﴾ (الحج:۳۹-۴۰) ”جن لوگوں سے جنگ کی جارہی ہے، انھیں لڑنے کی
اجازت دی جاتی ہے؛ کیونکہ ان پر ظلم ہوا ہے اور اللہ ان کی
مدد پر یقینا قدرت رکھتا ہے، یہ وہ لوگ ہیں، جو اپنے گھروں
سے بے قصور نکالے گئے، ان کا قصور صرف یہ تھا کہ یہ اللہ کو اپنا
پروردگار کہتے تھے“ اس کے اندر جن لوگوں کے خلاف جنگ کرنے کا حکم دیا جارہا
ہے، ان کا جرم یہ نہیں بیان کیا جارہا ہے کہ وہ ایک
دوسرے مذہب کے پیروکار ہیں؛ بلکہ ان کا جرم واضح انداز میں یہ
بیان کیاجارہا ہے کہ وہ ظلم کرتے ہیں، لوگوں کو بے قصور ان کے
گھروں سے نکالتے ہیں، ایسے لوگوں کے خلاف صرف مدافعتی جنگ کا
حکم نہیں دیاگیا؛ بلکہ دوسرے مظلوموں کی اعانت کا بھی
حکم دیاگیا اور تاکید کی گئی کہ کمزور و بے بس لوگو
کو ظالموں کے پنجوں سے چھڑاؤ۔
پھر اللہ تعالیٰ نے جنگ کی
اہمیت وضرورت کو ظاہر کرنے کے بعد یہ تصریح بھی فرمادی
: ﴿اَلَّذِیْنَ
آمَنُوْا یُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللہِ ج وَالَّذِیْنَ
کَفَرُوْا یُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ الطَّاغُوْتِ
فَقَاتِلُوْآ اَوْلِیَآءَ الشَّیْطٰنِ ج اِنَّ کَیْدَ
الشَّیْطٰنِ کَانَ ضَعِیْفاً﴾ (النساء:۷۶) ”جو لوگ ایمان دار ہیں، وہ اللہ کی راہ میں
جنگ کرتے ہیں اور جو کافر وسرکش ہیں وہ ظلم وسرکشی کی
خاطر لڑتے ہیں، پس شیطان کے دوستوں سے لڑوکہ شیطان کی تدبیر
لچر ہوتی ہے“ یہ ایک قولِ فیصل ہے، جس کے اندر حق وباطل کے
درمیان خط کھینچ دی گئی ہے کہ جو لوگ ظلم وسرکشی کے
لیے جنگ کریں گے، وہ شیطان کے حامی ہیں اور جولوگ
ظلم کو مٹانے کے لیے جنگ کرتے ہیں، وہ راہِ خدا کے مجاہد ہیں۔
یہی وہ جہاد ہے، جس کی
فضیلت سے قرآن وحدیث کے صفحات بھرے پُرے ہیں، یہی
وہ حق پرستی کی جنگ ہے، جس میں ایک رات کا جاگنا ہزار راتیں
جاگ کر عبادت کرنے سے بڑھ کر ہے، جس راہ میں غبار آلود ہونے والے قدموں سے
وعدہ کیا گیاہے کہ ان کو جہنم کی آگ کی طرف نہیں
گھسیٹا جائے گا۔
جہاد فی سبیل اللہ کی
اتنی فضیلت اور تعریف کس لیے ہے؟ اس جہاد سے دنیا کی
دولت اور ملک گیری مقصود نہیں ہے، تو آخر اللہ تعالیٰ
اس کے عوض بڑے بڑے درجے کیوں دے رہے ہیں؟ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ
نہیں چاہتا کہ اس کی زمین پر فتنہ وفساد پھیلایا
جائے، اسے یہ برداشت نہیں ہے کہ اس کے بندوں کو بے قصور تباہ وبرباد کیا
جائے، پس جو گروہ بغیر کسی حرص وطمع کے محض خدا کی رضا کی
خاطر دنیا کو اس فتنہ سے پاکر کرنے کے لیے کھڑا ہوجائے اور اس نیک
کام میں اپنا سب کچھ قربان کردے، اس سے زیادہ اللہ کی محبت،
اللہ کی رضا مندی کا مستحق کون ہوسکتا ہے؟ اس مضمون کے اندر اسی
فضیلت وحقیقت کو سمجھانے کی کوشش کی گئی ہے کہ نیکی
کے قیام و بقا کے لیے سب سے اہم چیز اس کی حفاظت کرنے والی
سچی قربانی کی روح ہے اور جس قوم سے یہ روح نکل جاتی
ہے، وہ بہت جلدبدی سے مغلوب ہوکر تباہ وبرباد ہوجاتی ہے۔
***
-----------------------------
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ 12 ،
جلد: 95 ، محرم الحرام 1433 ہجری
مطابق دسمبر 2011ء